بی بی سی اردو ڈاٹ کام :Courtesy
ایبٹ آباد آپریشن: پاکستان کا ردعمل
اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موت کے بعد سے جس قسم کا غیرسنجیدہ ردعمل ملکی سیاسی و فوجی قیادت نے ظاہر کیا ہے اس نے حکمرانوں کی سنگین صورتحال سے مناسب انداز میں نمٹنے کی کمزوریاں قوم پر واضح کر دیں ہیں۔
یہ صدر مملکت اور وزیر اعظم میں خوداعتمادی کا فقدان تھا یا ان کی حکمت عملی کا حصہ، لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اس معاملے کو پہلے دن سے ’غلط طریقے سے ہینڈل‘ کیا گیا۔ اسی قسم کے شکوک و شبہات فوجی قیادت کے بارے میں بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں۔اس تاثر کی سب سے بڑی تصدیق خود فوجی قیادت کی جانب سے پیر کی شام جاری بیان میں سامنے آئی۔ فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جانب سے ایک غیرمعمولی بیان میں اعتراف کیا گیا کہ ایبٹ آباد کارروائی پر ناکافی باضابطہ جواب کی وجہ سے عوام کی مایوسی میں اضافہ ہوا۔
اس بیان میں حکومت کا ذکر نہیں لیکن ظاہر ہے بقول فوج جواب اسے ہی دینا چاہیے تھا۔ فوجی سربراہ نے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب کرنے کا اعزاز بھی اسی بیان میں سیاسی قیادت سے چھین کر اپنے نام کرنے کی بظاہر کوشش یہ کہتے ہوئے کی کہ انہوں نے حکومت سے اس کی درخواست کی تھی۔
کیری لوگر بل کی طرح ایک مرتبہ پھر ایبٹ آباد کا واقعہ بظاہر سیاسی و فوجی قیادت کے درمیان اختلافات سامنے لے آیا ہے۔
فوجی حکام کو یہ شکایت اب کیوں یاد آئی جب پانی سر سے گزر چکا ہے؟ انہوں نے یہ مسئلہ پہلے کیوں نہیں اٹھایا؟ یہ ان کی بھی ناکامی ہے، وہ بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔
بعض تجزیہ نگاروں کے خیال میں سیاسی قیادت جان بوجھ کر اپنے آپ کو اس معاملے سے دور رکھنے کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ وہ شاید سمجھتی ہے کہ یہ عسکری حکام کی کمزوری یا ناکامی تھی لہذا انہیں ہی اس ’گند‘ کو صاف کرنا چاہیے۔
شاید یہی وجہ تھی کہ صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم گیلانی نے ملک کی تاریخ کے اس بدترین تاریخی واقعے کے ساتھ معمول کی طرح سلوک کیا۔
وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی چار روزہ دورے پر فرانس چل پڑے اور صدر نے ایوان صدر سے باہر آنے یا وہیں چند صحافیوں کو طلب کر کے اس معملے پر لب کشائی کی کوئی کوشش نہیں کی۔ وہ وفاقی حکومت کو مضبوط کرنے میں جتے رہے۔ وفاقی وزراء کی دوسری کھیپ نے اسی شام ایوان صدر میں حلف اٹھایا لیکن صدر نے اس موقع پر بھی اس معاملے کے بارے میں کوئی بات کرنے سے گریز کیا۔ ہاں مغرب کے لیے انہوں نے ایک بڑے امریکی اخبار میں ایک مضمون ضرور شائع کروا دیا۔
سیاسی قیادت کے ناقدین کے خیال میں وزارت خارجہ نے اپنی سفارتی حدود میں رہتے ہوئے جو بن پڑا حکومت کے دفاع میں کیا لیکن صدر یا وزیر اعظم کا اس بابت میڈیا سے رابطہ کئی گنا زیادہ موثر اور انتہائی مفید ثابت ہوسکتا تھا۔
قومی اسمبلی میں وزیر اعظم نے تقریر بھی کی تو انگریزی میں جس کا مقصد لوگوں نے یہی اخز کیا کہ یہ ایک مرتبہ پھر بین الاقومی برادری کے لیے تھی نا کہ پاکستانی عوام ک لیے۔ تقریر سنے والے ایک شخص نے غصے میں مجھے کہا کہ اس سے تو شاید وزیر اعظم نے یہ پیغام دیا کہ تم جیسے لوگ جائیں بھاڑ میں ہمیں تو عالمی برادری کی فکر زیادہ ہے۔
لیکن امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کافی کھل کر اسامہ کی موجودگی اور امریکی کارروائی سے لاعلمی کی تحقیقات کا کہہ رہے ہیں۔ وہ بار بار ذمہ دار افراد کو سزا دینے کی تکرار کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں توپوں کا رخ فوج کی جانب انتہائی زیرک انداز میں موڑ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اراکین پارلیمان کے اگر کوئی سوالات یا تحفظات ہیں تو وہ فوجی قیادت سے بند کمرہ اجلاس میں پوچھ سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ فوج ہی اس تمام معاملے میں جواب دے۔ ’ساڈا کج لینڑاں دینڑاں نیئں‘۔
Note: The viewpoint expressed in this article is solely that of the writer / news outlet. "FATA Awareness Initiative" Team may not agree with the opinion presented.
....................
We Hope You find the info useful. Keep visiting this blog and remember to leave your feedback / comments / suggestions / requests / corrections.
With Regards,
"FATA Awareness Initiative" Team.
No comments:
Post a Comment