بی بی سی اردو ڈاٹ کام :Courtesy
’نصراللہ آفریدی خود خبر بن گئے‘
’میں نے فیکس کے ذریعے دو خبریں بھیج دی ہیں اس کے علاوہ ای میل کے ذریعے کوئی خبر نہیں بھیجی ‘۔
یہ پیغام گزشتہ روز پشاور بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے سنئیر قبائلی صحافی نصر اللہ آفریدی نے آخری مرتبہ اپنے دفتر فون کرکے دیا اور اس کے تقریباً پانچ منٹ بعد وہ خود ایک خبر بن گئے۔نصر اللہ آفریدی کا تعلق خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ سے تھا۔ انہوں نے سنہ دو ہزار ایک میں اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔
نصر اللہ آفریدی آج کل پشاور کے ایک معروف اور مقامی اردو اخبار روزنامہ ’مشرق‘ سے وابستہ تھے جبکہ وہ سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی کےلیے بھی کام کرتے تھے۔اس سے پہلے وہ کچھ وقت تک اردو اخبار روزنامہ ’انصاف‘ کے ساتھ بھی منسلک رہے۔ وہ باڑہ سب ڈویژن پریس کلب کے صدر بھی تھے۔
نصر اللہ آفریدی چار سال پہلے اپنے آبائی علاقے باڑہ سے نقل مکانی کرکے پشاور منتقل ہوئے اور حیات آباد کے علاقے میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ مقیم تھے۔
بتایا جاتا ہے کہ نصر اللہ آفریدی کو کچھ شدت پسند تنظیموں کی جانب سے جان کا خطرہ تھا جبکہ انہیں متعدد بار قتل کی دھمکیاں بھی ملی تھیں۔
چند سال پہلے حیات آباد میں اُن کے مکان پر نامعلوم مسلح افراد کی جانب سے دستی بموں سے حملہ بھی کیا گیا تھا تاہم اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔
اس واقعہ کے بعد انہوں نے حیات آباد میں ایک اور جگہ کرائے پر مکان لے لیا جس کے بارے میں اُن کے چند قریبی ساتھیوں کے علاوہ کسی اور کو معلوم نہیں تھا۔
نصر اللہ آفریدی نے پشاور یونیورسٹی سے پاک سٹڈیز کے مضمون میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ اپنے ماں باپ کے اکلوتے بیٹے تھے جبکہ ان کی عمر چالیس کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ ان کے والد ایک ریٹائرڈ پولیس افسر تھے۔
نصر اللہ آفریدی کے پانچ بچے تھے جن میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔مقتول صحافی کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ ان کا ایک تیرہ سالہ بیٹا اور دس سالہ بیٹی قوت سماعت اور گویائی دونوں سے محروم ہیں جس کے بارے میں وہ اکثر پریشان بھی رہتے تھے۔
قبائلی علاقوں میں صحافیوں پر حملے ایک معمول بن چکا ہے اور اب یہ حملے خیبر پختون خوا کے مختلف اضلاع میں بھی پھیل چکے ہیں۔
فاٹا اور صوبہ خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کے خلاف جاری مبینہ جنگ میں اب تک سب سے زیادہ نقصان قبائلی صحافیوں کا ہوا ہے۔
قبائلی صحافیوں کے مطابق اب تک ان واقعات میں دس قبائلی صحافی فرائض کے دوران جان کی بازی ہار چکے ہیں جن میں نصر اللہ آفریدی (باڑہ)، مستری خان اورکزئی (اورکزئی ایجنسی، ہنگو)، حیات اللہ (شمالی وزیرستان) پرویز خان، عبد الوہاب (مہمند ایجنسی)، اللہ نور وزیر، امیر نواب خان (جنوبی وزیرستان)، نصیر آفریدی (درہ آدم خیل) ، ابراہیم خان اور نور حکیم (باجوڑ ایجنسی) شامل ہیں جبکہ ایک صحافی محمد یونس پچھلے دو تین سالوں سے جنوبی وزیرستان سے لاپتہ ہیں۔
قبائلی صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ٹرائیبل یونین آف جرنلسٹس گزشتہ کئی سالوں سے ہر فورم پر حکمرانوں سے یہ مطالبہ کرتی رہی ہے کہ ہلاک ہونے والے صحافیوں کےقتل کی تحقیقات کی جائیں اور اصل ملزمان کو بے نقاب کیا جائے لیکن اس سلسلے میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی جس سے صحافیوں میں شدید تشویش اور مایوسی پائی جاتی ہے۔
قبائلی صحافی حیات اللہ کے قتل کے خلاف پشاور اور فاٹا کے صحافیوں نے شدید احتجاج کیا تھا جس کے بعد اُس وقت کے گورنر سرحد علی محمد جان اورکزئی کی جانب سے دو تحقیقاتی کمیٹیاں مقرر کی گئی تھیں لیکن ابھی تک ان کمیٹیوں کی کوئی رپورٹ جاری نہیں کی گئی۔
بتایا جاتا ہے کہ ان تحقیقاتی رپورٹوں کو نامعلوم وجوہات کی بناء پر سیل کردیا گیا ہے۔
قبائلی علاقوں میں جاری فوجی کارروائیوں اور صحافیوں پر حملے کے باعث ان علاقوں میں کام کرنے والے زیادہ تر صحافی نقل مکانی کرکے پشاور اور دیگر علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جبکہ چند صحافیوں کے علاوہ فاٹا کے اکثر صحافی مالی مشکلات کا بھی شکار ہیں۔
Note: The viewpoint expressed in this article is solely that of the writer / news outlet. "FATA Awareness Initiative" Team may not agree with the opinion presented.
....................
We Hope You find the info useful. Keep visiting this blog and remember to leave your feedback / comments / suggestions / requests / corrections.
With Regards,
"FATA Awareness Initiative" Team.
No comments:
Post a Comment