بی بی سی اردو ڈاٹ کام :Courtesy
امریکہ سے تعلقات میں یکسر تبدیلی ناممکن
آصف فاروقی
پاکستانی حکام ایبٹ آباد میں امریکی کارروائی کے بعد امریکہ کے ساتھ مستقبل کے تعلقات کو نئی سمت دینے کے کام میں شدت سے مصروف ہیں اور گزشتہ دو روز سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں مختلف مقامات پر اس پالیسی پر عملدر آمد کے طریقۂ کار پر بحث جاری ہے۔
اس بحث میں شمولیت کے لیے امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی اسلام آباد میں ہیں اور اختتام ہفتہ ان کی ملاقاتیں مختلف فوجی اور سفارتی حکام سے جاری رہیں۔ہفتے اور اتوار کے روز پاکستان کے متعلقہ فوجی حکام اور دفتر خارجہ کے افسران چھٹی کے باوجود اپنے دفاتر میں حاضر رہے اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی قرارداد کی روشنی میں امریکہ کی جانب پاکستان کی خارجہ پالیسی کی نوک پلک درست کی جاتی رہی۔
اس خارجہ پالیسی کا ایک حصہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو واضح اور تحریری شکل دینے سے متعلق ہے۔
اس پالیسی سازی سے متعلق بعض عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بات اب طے ہے کہ امریکہ کے ساتھ خاص طور پر دفاعی نوعیت کے معاملات پر زبانی تجاویز (یا احکام) وصول نہیں کیے جائیں گے اور امریکہ کے ساتھ ہر قسم کی گفتگو تحریری ہو گی۔
ذرائع کہتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے زبانی ہدایات پر پاکستانی حکام کی عملدر آمد کی روایت سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں پروان چڑھی جب بہت سے حساس آپریشنز پاکستان نے امریکہ کے کسی افسر کے زبانی حکم پر کیے اور اب جب ان کا حوالہ دیا جاتا ہے تو یہ تلاش کرنا ہی مشکل ہو جاتا ہے کہ فلاں کام کس امریکی شخصیت کی ایما پر کیا گیا۔
پاکستانی حکام نے امریکہ کے ساتھ دفاعی معاملات پر اب چھوٹے سے چھوٹے تعاون کو بھی تحریری شکل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بارے میں پاکستانی فوج کا قانونی شعبے کے افسران اور دفتر خارجہ کے متعلقہ افسران سر جوڑے بیٹھے بتائے جاتے ہیں۔
ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ متنازعہ اور پاکستان امریکہ تعلقات کے لیے بہت ہی بنیادی غیر تحریری معاہدوں کا کیا کیا جائے جس میں سر فہرست امریکی جاسوس طیاروں کا پاکستان کے قبائلی علاقوں پر حملے کرنے کا معاملہ بھی شامل ہے۔
بعض سفارتی مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہت بنیادی تبدیلی تو ممکن نہیں ہے لیکن فریقین کے درمیان بد اعتمادی جن حدوں کو چھو رہی ہے، ایسے میں سفارتی تعلقات کا تحریری شکل اختیار کرنا ضروری ہے۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ اور چار دہائیوں سے پاکستان کی خارجہ پالیسی سے منسلک رہنے والے تنویر احمد خان تاہم سمجھتے ہیں کہ بعض معاملات اب بھی غیر تحریری ہی رہیں گے۔
’نئے فریم ورک تحریر کیے جائیں گے اور نئے معاہدے ہونا بھی ضروری ہے۔ پھر بھی کچھ تفصیلات ہوں گی جو احاطہ تحریر میں نہ آئیں۔ اب بھی بعض ایسے سمجھوتے ہوں گے جو زبانی ہی ہوں گے اور جنہیں ضبط تحریر میں لانا دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں ہو گا‘۔
امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی نے گزشتہ دو روز کے دوران متعدد عسکری اور سفارتی افسران سے ملاقاتیں کی ہیں جن میں سے بعض میں خارجہ پالیسی کے بعض عملی پہلوؤوں پر گرما گرم بحث بھی ہوئی۔
حسین حقانی پاکستانی فوج کے اعلیٰ حکام کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں کہ گزشتہ کچھ عرصے میں امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے نے سات ہزار امریکیوں کو بغیر چھان پھٹک کے ویزے جاری کیے ہیں اور انہوں نے حکام کا باور کروایا ہے کہ تمام ویزے ضابطوں کے تحت ضروری تحقیق کے بعد جاری کیے گئے تھے۔
یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو از سر نو ترتیب دینے میں پاکستانی فوج کا کتنا عمل دخل ہو گا اور سیاسی حکومت اس بارے میں کتنی با رسوخ ہو گی۔
اس سوال کا جواب قطعی طور پر دینا تو ممکن نہیں لیکن پاکستانی فوجی حکام امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت تبدیل کرنے میں جتنی مستعدی دکھا رہے ہیں اس کے پیش نظر ماہرین سمجھتے ہیں کہ حزب اختلاف کے راہنما میاں نواز شریف کا یہ اصرار عملی معاملات میں جگہ نہیں پا سکے گا کہ فوج کا خارجہ پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔
تنویر احمد خان کے مطابق نواز شریف کی یہ خواہش موجود حالات میں قابل عمل نہیں ہے۔’ایسا نہیں ہے کہ فوج کہ خارجہ پالیسی کے ہر چھوٹے بڑے کام میں مداخلت کرتی ہے لیکن اس کے بعض مفادات ہیں جن سے وہ کبھی صرف نظر بھی نہیں کر سکتی۔ اسی طرح سیاسی حکومت کی کمزوری بھی فوج کو سفارتی معاملات میں شامل کرنے میں کردار ادا کرتی ہے۔ مثلاً امریکہ کے ساتھ جب بھی سٹریٹجک مذاکرات ہوئے ہیں اس وفد میں پاکستانی فوجی حکام ضرور شامل ہوتے ہیں‘۔
کیا پاکستان میں امریکہ کے ساتھ تعلقات کا نیا باب لکھا جا رہا ہے؟ تنویر احمد خان ایسا نہیں سمجھتے۔
’اتنے اہم خارجہ پالیسی معاملے میں یو ٹرن لینے سے پہلے بہت زیادہ تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ سب سے پہلے آپ کو اپنی معیشت کو بین الاقوامی اداروں کے چنگل سے چھڑانا ہو گا۔ اس کے بعد اپنے طرز سیاست اور حکمرانی میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ یہ کام دو دن میں نہیں ہو سکتا‘۔
تنویر احمد خان کہتے ہیں کہ پاکستان کا حکمران طبقہ(سیاسی اور فوجی اور افسر شاہی) جس طرح کی زندگی گزارنے کے عادی ہو چکے ہیں، اس کے بعد امریکہ کے ساتھ تعلقات کو یکسر تبدیل کر دینا ممکن نہیں ہے۔
Note: The viewpoint expressed in this article is solely that of the writer / news outlet. "FATA Awareness Initiative" Team may not agree with the opinion presented.
....................
We Hope You find the info useful. Keep visiting this blog and remember to leave your feedback / comments / suggestions / requests / corrections.
With Regards,
"FATA Awareness Initiative" Team.
No comments:
Post a Comment