بی بی سی اردو ڈاٹ کام :Courtesy
یہ آرٹسٹ لوگ ہیں
جو لوگ سیاسی اصول پسندی ، نظریے سے وفاداری اور عمومی اخلاقیات کی پاسداری کی بات کرتے ہیں۔اب انہیں چاہیے کہ کہیں بھی واعظ یا لیکچرر کی ملازمت پکڑ لیں، خانقاہ بنا لیں یا تبلیغ پر نکل جائیں۔ کتابی سچائیوں کو کاروبارِ سیاست میں گھسیڑنے کی کوشش نہ کریں۔خود کو اس کنفیوژن سے نکالیں کہ سیاست دنیا کے کسی بھی کاروبار سے مختلف شے ہے۔ ان بے چاروں کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ دنیا کا ہر کاروبار منافع کے لئے کیا جاتا ہے۔گھاٹے کی ہٹی پر آخر کوئی کب تک بیٹھ سکتا ہے۔
سیاست نہ صرف ایک کاروبار ہے بلکہ فائن آرٹ کا کاروبار ہے۔ اسی لیے تو اسے ناممکنات کو ممکن بنانے کا فن کہا جاتا ہے۔ سیاست کو آپ مذہبی ، سیکولر ، دائیں یا بائیں کے خانوں میں رکھ کر خود کو تو تسلی دے سکتے ہیں لیکن یہ حقیقت نہیں بدل سکتے کہ سیاست بذاتِ خود ایک مذہب ہے ۔ دنیا کا سب سے لچکدار اور جادوئی مذہب جس میں اتنی گنجائش ہے کہ سیاہ سفید ہوسکتا ہے۔ بینگن کسی بھی وقت کریلا بن سکتا ہے اور شیر بلی میں بدل سکتا ہے۔ اس سے بھی بڑا چمتکار یہ ہے کہ بازی گری دکھانے والا آپ کو اور مجھے قائل بھی کرلیتا ہے کہ جسے آپ بانس سمجھ رہے ہیں اصل میں یہ کرسی ہے۔
تقسیمِ ہند سے پہلے ایک دن جو مسلم لیگی پنجاب کے یونینسٹ وزیرِ اعلی خضر حیات کو ٹوڈی بچہ ہائے ہائے کہہ رہے تھے اگلے دن وہی مسلم لیگی کارکن جناح خضر بھائی بھائی کے نعرے لگا رہے تھے۔
جو ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے سکریٹری جنرل تھے انہی بھٹو کے پیپلز پارٹی کے جلسے میں ایوب کتا ہائے ہائے کے نعرے لگ رہے تھے۔
جس خان عبدالقیوم خان کو بھٹو اپنے جلسوں میں ڈبل بیرل خان اور جس ممتاز دولتانہ کو چوہا کہہ کر پکارتے تھے وہی قیوم خان بھٹو کے وزیرِ داخلہ اور دولتانہ لندن میں پاکستان کے ہائی کمشنر تعینات کئے گئے۔
جو جماعتِ اسلامی ولی خان اور ان کے حامیوں کو سرخے اور ملک دشمن سمجھتی تھی وہی جماعتِ اسلامی بھٹو کے خلاف پی این اے کے اتحاد میں ولی خان کے حامیوں کے ساتھ بیٹھی تھی اور اسی پی این اے میں شامل جمعیت علمائے اسلام انیس سو تراسی کی ایم آرڈی تحریک میں پیپلز پارٹی کے شانہ بشانہ گرفتاریاں بھی دے رہی تھی۔ اور پھر وہی جمعیت علمائے اسلام بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمی کو غیر شرعی قرار دے رہی تھی اور پھر انہی کی پارٹی کے ساتھ شریکِ اقتدار بھی رہی۔
جن شریف برادران نے ضیا الحق کو روحانی باپ قرار دیا تھا اور جنہوں نے انیس سو اٹھاسی کی انتخابی مہم میں امریکی صدر فورڈ کے ساتھ بیگم بھٹو کے رقص کی تصاویر کے پمفلٹ ہوائی جہاز سے پورے لاہور میں گروائے تھے انہی شریف برادران کی آنکھیں بھٹو کی بیٹی کی موت پر روتے روتے سرخ ہوگئیں۔ اور ان سے بڑا جمہوریت نواز فوجی آمریت کا دشمن آج پورے پاکستان میں نظر نہیں آتا۔
الطاف حسین نے مہاجر حقوق حاصل کرنے اور ملک سے روایتی سیاست کے خاتمے کے نعرے پر جس تحریک کی بنیاد رکھی وہ بعد میں متحدہ قومی موومنٹ ہوگئی۔ بے نظیر ہوں کہ نواز شریف، کہ پرویز مشرف، کہ جام صادق، کہ ارباب رحیم ، کہ قائم علی شاہ سب کے ساتھ شریکِ اقتدار رہی اور ہے۔
چنانچہ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ بھولے بھالے دانشور اس بات کو لے کر کیوں بیٹھ گئے ہیں کہ لوجی مسلم لیگ ق کو ایجنسیوں کی بغل بچہ قاتل لیگ کہنے والے زرداری نے بھٹو کو چودھری ظہور الہی کا قاتل سمجھنے والے ، بھٹو کی سزائے موت پر دستخط کرنے والے قلم کو سنبھال رکھنے والے اور ضیا سے مشرف تک ہر آمر کا ساتھ دینے والے چودھری برادران سے اتحاد کیوں کرلیا۔
ان ہستیوں کو اس وقت تنقید کی نہیں ، حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ یہ آرٹسٹ ہیں آرٹسٹ ! ان کی قدر کیجئے اور اس الزام کو دھوئیے کہ پاکستانی لوگ ہمیشہ اہلِ فن کی ناقدری کرتے ہیں۔
یہ بڑے لوگ ہیں ، جینے کا ہنر جانتے ہیں۔۔۔
....................
Note: The viewpoint expressed in this article is solely that of the writer / news outlet. "FATA Awareness Initiative" Team may not agree with the opinion presented.
....................
We Hope You find the info useful. Keep visiting this blog and remember to leave your feedback / comments / suggestions / requests / corrections.
With Regards,
"FATA Awareness Initiative" Team.
No comments:
Post a Comment