Pages

Saturday, May 14, 2011

Carnage in Shabqadar; Tale of Twin Suicide Attacks on 13 May 2011 - شبقدر میں قتلِ عام

 بی بی سی اردو ڈاٹ کام :Courtesy

شبقدر میں قتلِ عام

طالبان نے کہا ہے کہ پاکستان کے شمال مغربی شہر شبقدر میں نیم فوجی دستے کی اکیڈمی کے باہر حملہ انہوں نے کیا ہے جس میں کم از کم اسی افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ بی بی سی فارسی ٹی وی کے ہارون نجفی زادہ دھماکے کی جگہ سے اس قتلِ عام کے متعلق بتاتے ہیں۔

’ہم دھماکے کے تین گھنٹے بعد یہاں پہنچے اور ہم نے انتہائی افرادتفری کا منظر دیکھا۔ یہاں ایسا منظر ہے جو کہ حالیہ برسوں میں پاکستان بھر میں دکھائی دیا ہے لیکن پھر بھی اس سے ہونے والے انتہائی صدمے میں کمی نہیں آتی۔
علاقے کی تمام دکانیں بند تھیں۔ ان میں سے کچھ دونوں دھماکوں کی شدت کی وجہ سے کافی حد تک ٹوٹ چکی تھیں۔ لوگ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں کھڑے تھے اور انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو گیا ہے۔

ایک شخص سجاد علی نے، جس کے کپڑے خون سے بھرے ہوئے تھے، مجھے بتایا کہ کس طرح اس نے اپنے کندھوں پر اٹھا کر زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا۔
’حکومت کو چاہیئے کہ وہ اب یہ عدمِ تحفظ کی حالت کا خاتمہ کریں۔ یہ ہمارے لیے بہت مشکل ہے، یہ ہمیں ناخوش کرتی ہے۔ ہمیں نشانہ بنایا جا رہا ہے، ہمیں نقصان پہنچایا جا رہا ہے، یہ ہمیں ہر روز تکلیف پہنچا رہے ہیں۔‘
مقامی سیاستدانوں نے جائے وقوع کا دورہ کیا ہے اور نیم فوجی دستے کے اہلکار جن کو نشانہ بنایا گیا تھا گم سم پھرتے نظر آ رہے تھے۔
انسانی جسموں کے ٹکڑے ادھر ادھر بکھرے پڑے نظر آئے۔ بہت خون پڑا تھا۔ زمین پر لوہے کے بڑے ٹکڑے کے چھوٹے چھوٹے حصے پڑے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ اس موٹرسائیکل کے ٹکڑے ہیں جو ایک خودکش بمبار نے استعمال کی تھی۔
حکام اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دونوں خودکش بمباروں نے پانچ منٹ کے وقفے سے دھماکے کیے۔ لیکن ان دھماکوں میں استعمال کیے گئے بموں کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کرنا تھا۔ ان بموں میں سے سینکڑوں کیل نکلے جو گولیوں کی طرح ان لوگوں کو لگے جو ارد گرد موجود تھے۔
قریب موجود سب ہی لوہے کی چیزیں جیسا کہ کاریں، ویگنیں اور دوکانوں کے شٹروں کی حالت اس بات کی گواہ ہے کہ کیل کتنے زور سے آئے ہوا میں اڑے تھے۔ بہت سی لاشیں وہاں سے اٹھا دی گئی تھیں اور زخمیوں کو ہسپتال میں پہنچا دیا گیا تھا۔
پہلا دھماکہ صبح چھ بجے ہوا جبکہ دوسرا دھماکہ اس کے پانچ چھ منٹ کے بعد ہوا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ دوسرا دھماکہ بہت زوردار اور ڈرا دینے والا تھا۔
مقامی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر دھماکے کچھ اور دیر کے بعد دن میں ہوتے تو ان سے اور زیادہ جانی نقصان ہوتا۔ شبقدر ایک چھوٹا سا شہر ہونے کے باوجود بہت مصروف علاقہ ہے۔
نیم فوجی دستے کی اکیڈمی مرکزی بازار میں مارکیٹ کے وسط میں ہے جو کہ آہستہ آہستہ دن میں مصروف ہوتی جاتی ہے۔ جب دھماکہ ہوا اس وقت بہت کم دوکاندار اور گاہک موجود تھے۔
شبقدر قبائلی علاقے کی سرحد کے قریب ہے۔ مہمند ایجنسی، جہاں طالبان کا بہت زور ہے، یہاں سے کچھ دور نہیں۔
دھماکے کی جگہ کے قریب ہی ایک مسجد موجود ہے جس میں مولوی جمعہ کا خطبہ دے رہا تھا۔ لاؤڈ سپیکر پر دیا جانے والا اس کا خطبہ شہر کے کئی حصوں میں سنا جا رہا تھا۔ لیکن اس نے ایک مرتبہ بھی چند گھنٹے پہلے ہونے والے دھماکے کا ذکر نہیں کیا۔ اس کے خطبے میں جن چیزوں کا ذکر تھا ان میں تھا کہ مسلمانوں کو شراب نہیں پینی چاہیئے، عورتوں کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیئے، اور کس طرح انہیں ایک حقیقی اور صاف اسلامی زندگی گزارنی چاہیئے۔
حالانکہ جب نیم فوجی دستے کے نوجوان رنگروٹوں کے پیلے تابوت اکیڈمی میں لائے جا رہے تھے اس وقت بھی اس نے ایک مرتبہ بھی خودکش حملے کا ذکر نہیں کیا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ طالبان کے متعلق کچھ کہنے، مذمت کرنے سے ڈرتا ہو کیونکہ یہ علاقے قبائلی علاقوں کے بالکل نزدیک ہے جہاں ان کا اثر و رسوخ ہے۔
ان بموں نے ایف سی کو ٹارگٹ کیا تھا۔ میں نے بعد میں اکیڈمی سے نکلتے ہوئے ہلاک ہونے والوں کے ساتھی دیکھے۔ وہ بھی چھٹیوں پر جانے والے تھے لیکن اب بموں نے ان کا جانا موخر کر دیا ہے۔
یہ وہی لوگ ہیں جو پاکستان کے افغانستان کے ساتھ ملحقہ علاقوں اور ایران کی سرحد کے علاقوں میں تعینات ہوں گے۔
وہ اکیڈمی کے مرکزی دروازے سے نکلتے ہوئے بہت جوان لگ رہے تھے۔ انہوں نے اپنی کمروں پر بڑے بیگ اٹھا رکھے تھے اور گھر جانے کے لیے تیار تھے۔ لیکن وہ اپ سیٹ اور ڈرے ہوئے نظر آ رہے تھے۔

....................

Note: The viewpoint expressed in this article is solely that of the writer / news outlet. "FATA Awareness Initiative" Team may not agree with the opinion presented.
....................

We Hope You find the info useful. Keep visiting this blog and remember to leave your feedback / comments / suggestions / requests / corrections.
With Regards,
"FATA Awareness Initiative" Team.

No comments:

Post a Comment