بی بی سی اردو ڈاٹ کام :Courtesy
بھٹو ریفرنس میں لاجر بینچ کی تشکیل
شہزاد ملک
سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے مقدمے میں دی جانے والی پھانسی پر قانونی رائے لینے کے حوالے سےدائر کیے جانے والے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے ۔
عدالت نے اپنے حکمنامے میں یہ نہیں بتایا کہ یہ بینچ کتنے رکنی ہوگا تاہم یہ بینچ دو مئی سے اس ریفرنس کی باقاعدہ سماعت کرے گا۔
سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم کو قتل کے مقدمے میں دی گئی سزا کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا تمام ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔ سپریم کورٹ نے حکومتی وکیل سے بھی کہا ہے کہ اُن کے پاس اس مقدمے کے حوالے سے جو ریکارڈ ہے وہ بھی عدالت میں پیش کریں۔
عدالت نے اس ریفرنس کی سماعت کے لیے دس عدالتی معاونین بھی مقرر کیے ہیں ان میں بیرسٹر اعتزاز احسن، ایس ایم ظفر، عبدالحفیظ پیرزادہ، فخرالدین جی ابراہیم، خالد انور، مخدوم علی خان، لطیف آفریدی، علی احمد کُرد، جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود اور بیرسٹر ظہورالحق شامل ہیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل اور چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل کو بھی نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعرات کو اس صدارتی ریفرنس کی ابتدائی سماعت کی۔
سرکاری وکیل بابر اعوان نے اس ریفرنس میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق پانچ سوالات پر سپریم کورٹ کی رائے طلب کی ہے۔
ان میں پوچھا گیا ہے کہ کیا سابق وزیر اعظم کے قتل کے مقدمے کا عدالتی ٹرائیل آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق سے مطابقت رکھتا ہے۔
صدارتی ریفرنس میں یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو دی جانے والی پھانسی اسلامی قوانین سے مطابقت رکھتی ہے اور کیا وعدہ معاف گواہ کے بیان پر کسی کو پھانسی دی جاسکتی ہے اور کیا بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کسی عدالت میں مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔
ان سوالات میں یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ جب ریکارڈ میں اس مقدمے کی سماعت کرنے والے ججوں کا رویہ جانب دارانہ ہو تو کیا ان حالات میں عدالتی کارروائی کو منصفانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ سے اس سوال پر بھی رائے لی گئی ہے کہ کیا اُس وقت کے حالات اور ریکارڈ کے مطابق بھٹو کو دی جانے والی سزا درست تھی۔
یاد رہے کہ اس ریفرنس کی گُزشتہ سماعت کے دوران عدالت نے بابر اعوان سے کہا تھا کہ اس صدارتی ریفرنس میں وہ قانونی نکات واضح نہیں ہیں جن سے متعلق سپریم کورٹ سے رائے مانگی گئی ہے۔
عدالت کی ہدایت پر اس ریفرنس کو بیس اپریل کو ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں دوبارہ پیش کیا گیا جہاں سے منظوری کے بعد اس ریفرنس میں پانچ سوال عدالت میں پیش کیے گئے۔
سماعت کے دوران سرکاری وکیل نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ سابق وزیر اعظم کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس کی عدالتی کارروائی کے دوران ایک کیمرہ لگانے کی اجازت دی جائے تاکہ دنیا اس ریفرنس پر عدالتی کارروائی دیکھ سکے جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ میڈیا اتنا طاقتور ہے اور اس کی موجودگی میں کسی کیمرے کی ضرورت نہیں ہے۔
سماعت کے دوران حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور رہنماوں کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود تھی۔
Note: The viewpoint expressed in this article is solely that of the writer. "FATA Awareness Initiative" Team may not agree with the opinion presented.
.......................We Hope You find the info useful. Keep visiting this blog and remember to leave your feedback / comments / suggestions / requests.
With Regards,
"FATA Awareness Initiative" Team.
No comments:
Post a Comment