Pages

Saturday, April 30, 2011

Organ Trade in Pakistan Booming again - ’پاکستان میں اعضاء کی تجارت پھر شروع‘


   بی بی سی اردو ڈاٹ کام :Courtesy

’پاکستان میں اعضاء کی تجارت پھر شروع‘

پاکستان میں ڈاکٹروں کی تنظیموں نے انکشاف کیا ہے کہ ملک میں اعضاء کی تجارت کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع ہوگیا ہے۔
اس بات کا انکشاف پاکستان ٹرانسپلانٹ سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر ادیب رضوی نے جمعہ کو کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں کیا۔
نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق ڈاکٹر رضوی نے بتایا کہ پاکستان دو ہزار سات تک اعضا کی فروخت کی بین الاقوامی منڈی کی حیثیت اختیار کر چکا تھا مگر ڈاکٹروں اور سول سوسائیٹی کے جدوجہد کے بعد دو ہزار سات میں قانون سازی کے لیے کوششیں ہوئیں اور اس کاروبار میں ایکدم کمی آگئی اور دو ہزار دس میں اعضا کی پیوندکاری کا قانون بننے کے بعد یہ کاروبار بند ہوگیا تھا مگر ایک مرتبہ پھر اس میں جان پڑ گئی ہے۔

’ کڈنی میرج کا سلسلہ بھی شروع ہوا ہے، جو لوگ بیرون ملک سے آتے ہیں اکثر اوقات یہاں شادی کرلیتے ہیں، جس کے بعد انہیں ایک سرٹیفکیٹ دے دیا جاتا ہے کہ شوہر یا بیوی گردہ دے سکتی ہے۔ اس کی حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹیوں نے بھی حمایت کرنا شروع کردی۔ ہم نے اس پر احتجاج کیا مگر تردید کی گئی‘۔
اعضاء کی پیوندکاری کے قانون کے مطابق کوئی بھی غیر ملکی، پیوندکاری کے مقصد کے لیے پاکستان کا سفر نہیں کرسکتا، صرف عزیز رشتے دار ایک دوسرے کو اعضاء بطور عطیہ دے سکتے ہیں، خلاف ورزی پر دس سال قید اور جرمانے کی سزا مقرر ہے۔
سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولاجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن میں ڈاکٹر ادیب کی بریفنگ کے موقعے پرگزشتہ ماہ اعضا فروخت کرنے والے کچھ مریضوں کے انٹرویوز بھی دکھائے گئے۔ ان مریضوں کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا جو بھٹہ مزدور یا کسان تھے جو قرضوں میں جکڑے ہوئے تھے اور ان سے نجات کے لیے انہوں نے دو سے ڈھائی لاکھ رپے میں اپنے گردے فروخت کیے۔
اس موقع پر پاکستان سوسائٹی آف نیفرالوجی کےصدر پروفیسر اعجاز احمد کا کہنا تھا کہ پیوندکاری قانونی ہو یا غیر قانونی مریضوں کو مسلسل نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
’جن مریضوں کی کمرشل اداروں (غیر قانونی پیوندکاری کے اداروں) میں پیوندکاری ہوتی ہے ان کے پاس پیروی کا کوئی نظام نہیں ہوتا ہے کہ وہ کس جگہ جاکر علاج کرائیں کیونکہ پیوندکاری کوئی عام سرجیکل آپریشن نہیں ہے۔ اس آپریشن کے بعد مریض اور گردہ دینے والے دونوں کو ایک خاص قسم کی دوائیں کھانی پڑتی ہیں تاکہ گردہ صحیح طریقے سے کام کرتا رہے۔ اس لیے انہیں ڈاکٹروں کی زیر نگرانی رہنا پڑتا ہے۔‛
ماہرین کا کہنا تھا کہ اب غیر قانونی پیوندکاری کے ہسپتال بنگلوز میں قائم ہیں جہاں تمام سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور ایسے بنگلوز لاہور اور راولپنڈی میں موجود ہیں مگر حکومتی اداروں نے آنکھ بند کر رکھی ہیں۔
اس موقع پر رکن قومی اسمبلی اور ہیومن رائٹس کمیٹی کی رکن کشور زہرہ کا کہنا تھا کہ غیر قانونی پیوندکاری کے کاروبار میں ملوث مافیا نے پارلیمنٹرینز کو مضبوط کرلیا تھا کہ پیوند کاری کا قانون پاس نہ ہو۔
’اس چٹان کو توڑنا بڑا مشکل کام تھا مگر آخر وہ ٹوٹ گئی۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اسی طرح یہ کاروبار رواں دواں ہے۔ اس لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوگا اور سول سوسائٹی کو بھی اٹھ کھڑا ہونا پڑے گا تاکہ اس کاروبار میں ملوث ڈاکٹروں کو عبرت ناک سزا دی جاسکے‘۔

....................

Note: The viewpoint expressed in this article is solely that of the writer / news outlet. "FATA Awareness Initiative" Team may not agree with the opinion presented.
....................


We Hope You find the info useful. Keep visiting this blog and remember to leave your feedback / comments / suggestions / requests / corrections.
With Regards,
"FATA Awareness Initiative" Team.

No comments:

Post a Comment