بی بی سی اردو ڈاٹ کام :Courtesy
خیبر پختونخواہ کے متاثرین کی نئی شناخت
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن سے متاثر ہو کر نقل مکانی کرنے والے کو ایک نئی شناخت ملی ہے۔ ان افراد سےجب بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا تعارف کرا دیں تو ان کا جواب ہوتا ہے’میں آئی ڈی پی ہوں‘۔ باقی شناخت بعد میں بتائی جاتی ہے۔
وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں کی کل آبادی لگ بھگ پینتیس لاکھ ہے جن میں سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تیرہ لاکھ افراد اپنا گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر دیگر علاقوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن سے عام لوگوں کی لاکھوں روپے کی املاک تباہ ہوئی ہیں۔ ان لوگوں کے مکان، کاروبار، کھیت، کھلیان اور دیگر عمارتیں اب بیشتر مقامات پر ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔
متاثرہ علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے فوجی آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی کی اور آج بھی کوئی کیمپ میں مقیم ہے تو کچھ رشتہ داروں کے پاس۔ بعض اپنے طور پر کرائے کے مکان حاصل کرکے امدادی خوراک پر گزارہ کر رہے ہیں۔
سنہ دو ہزار نو میں شروع کیےگئے فوجی آپریشن میں صرف جنوبی وزیرستان سے پینتیس ہزار سے زیادہ خاندانوں نے نقل مکانی کی جو اس وقت ضلع ٹانک اور ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں رہائش پذیر ہیں۔
ان متاثرین نے بتایا کہ اپنے وطن میں ان کے پاس سب کچھ تھا اور اب یہاں پردیس میں کچھ بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی اپنے وطن نہیں جا سکتے۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے فوج سے ریٹائرڈ ایک بزرگ گل بادشاہ نے بتایا ’میں نے اپنی ساری زندگی کی جمع پونجھی ایک مکان بنانے پر لگادی تھی جس پر اس وقت کوئی اسی لاکھ روپے خرچہ آیا تھا کیونکہ میرا مکان پہاڑ پر تھا اور میں تعمیراتی سامان ضلع ٹانک سے لاتا تھا اور پھر اونٹوں کی مدد سے یہ تعمیراتی سامان پہاڑ پر پہنچایا جاتا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ اپنے گاؤں میں ان کے کھیت اور سیب کے باغات تھے، بچے کاروبار کرتے تھے اور ان کی زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی۔
گل بادشاہ کے مطابق فوجی آپریشن کی وجہ سے مکان، کھیت اور باغات ملیامیٹ ہو چکے ہیں اب وہ سب کچھ دیکھا بھی نہیں جا سکتا۔ ’ہمارا شمار اپنے وطن میں متوسط طبقے میں ہوتا تھا لیکن آج اس قطار میں بیٹھ کر بیس کلو آٹے کا تھیلا امداد کی شکل میں لینے کے لیے صبح سے انتظار کر رہا ہوں، ٹانگوں میں اتنی سکت نہیں ہے کہ کھڑا ہو سکوں، بس اللہ کسی کو مجبور نہ کرے۔‘
جنوبی وزیرستان کے ہی ایک اور بزرگ گل حبیب نے بتایا کہ ان کے مکان ، دولت اور عزت سب کچھ ختم ہو چکی ہے۔ ایک طرف طالبان ہیں اور دوسری طرف فوج ہے دونوں ایک نہر میں پھنسے ہوئے ہیں ہماری مجبوری ہے کہ اب ایسے حالات میں وطن واپس نہیں جا سکتے۔
گل حبیب نے بتایا کہ انھوں نے اپنے بچوں کو تعلیم دلوائی کہ افسر بنیں گے لیکن حالات نے انھیں بھکاری بنا دیا ہے اس لیے بچے اب مزدوری نہیں کرتے۔ ’کہتے ہیں کہ وہ یہ کام کیسے کر سکتے ہیں میرے بیٹے فیشن ایبل ہوگئے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ تھوڑی سی امداد لینے کے لیے آتے ہیں تو سوچیں کچھ ہوتی ہیں اور پریشانی سے جسم دماغ کا ساتھ نہیں دیتا، مجبور ہیں کیا کر سکتے ہیں لیکن وطن واپس نہیں جائیں گے۔
ایک نوجوان ہمایوں سے جب کہا گیا کہ اپنا تعارف کرادیں تو انھوں نے کہا ’میں آئی ڈی پی ہوں باقی کچھ نہیں ہوں۔‘
ہمایوں نے بتایا کہ ان کے علاقے میں بنیادی سہولیات تو پہلے بھی نہیں تھے اب فوجی آپریشن سے سب کچھ تباہ ہو گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ موت ہر جگہ آ سکتی ہے یہاں عزت سے رات گزر جاتی ہے کھانے کو بھی کچھ مل جاتا ہے لیکن اب اپنے وطن میں جو کبھی امن کا گہوارہ تھا وہاں ہر چیز کا خطرہ ہے جان کا، عزات کا، بچوں کا، ہر چیز کا خطرہ ہے۔
یہی صورتحال پشاور کے قریب جلوزئی کیمپ میں رہائش پزیر دیگر قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے جو نہ یہاں سکھی ہیں اور نہ ہی وطن واپس جانے کے لیے تیار ہیں بس اب اس نئی شناخت آئی ڈی پی پر ہی وہ راضی نظر آتے ہیں۔
....................
Note: The viewpoint expressed in this article is solely that of the writer / news outlet. "FATA Awareness Initiative" Team may not agree with the opinion presented.
....................
We Hope You find the info useful. Keep visiting this blog and remember to leave your feedback / comments / suggestions / requests / corrections.
With Regards,
"FATA Awareness Initiative" Team.
No comments:
Post a Comment