Pages

Wednesday, April 20, 2011

سوات میں فوجی عدالتوں کا مطالبہ BBC Urdu Report

بی بی سی اردو ڈاٹ کام :Courtesy

سوات میں فوجی عدالتوں کا مطالبہ

پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا کے وادی سوات میں بااثر خوانین پر مشتمل ایک جرگہ نے پہلی مرتبہ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سوات میں آپریشن کے دوران گرفتار ہونے والے عسکریت پسندوں کے مقدمات فوری نمٹانے کےلیے فوجی عدالتیں قائم کئے جائیں اور دہشت گردی میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کےلیے انہی فوجی عدالتوں سے سزائیں دی جائے۔

بدھ کو سوات پریس کلب میں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے متاثرین سوات کے نام سے موسوم جرگہ ممبران نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ سوات میں دہشتگردی کے الزامات کے تحت گرفتار ہونے والے افراد کے مقدمات فوری طورپر نمٹائے جائیں اور اس کےلیے فوجی عدالتوں سے بہتر اور کوئی عدالت نہیں ہوسکتی۔
جرگہ کے ایک رکن اور تحصیل مٹہ کے سابق ناظم عبد الجبار خان نے بی بی سی کو بتایا کہ عسکریت پسندی کے دوران پکڑے جانے والے افراد ویسے بھی عام عدالتوں کو نہیں مانتے اور نہ ان کو ان عدالتوں پر اعتبار ہے لہذا اس سے بہتر تو یہ ہے کہ فوجی عدالتیں قائم کی جائے تاکہ ان کے کیسوں کو فوری اور جلد نمٹایا جایا۔ ان کے مطابق پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی عدالتیں پہلے ہی کام کررہی ہے۔
انہوں نے پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سربراہ عاصمہ جہانگیر کی طرف سے سوات میں وکلاء کنونشن کے دوران دیئے گئے اس بیان کی بھی سخت الفاظ میں مذمت کی جس میں کہاگیا ہے کہ سوات میں ماورائے عدالت قتل ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ جب میں سوات میں طالبان لوگوں کے سرقلم کرکے ان کی لاشیں کئی دنوں تک سرعام لٹکایا کر تے تھے تو اس وقت انسانی حقوق کے نمائندے کہاں تھے ، اس وقت انہوں نے آواز کیوں نہیں اٹھائی۔ ’ ان کے بقول عاصمہ جہانگیر کے بیانات سے سوات کے عوام کو دکھ پہنچ رہا ہے۔

عبد الجبار خان کے مطابق یہ سوات کے عوام کا مطالبہ ہے کہ فوجی عدالتیں قائم ہونی چاہیے تاکہ جن لوگوں نے عوام کے ساتھ ظلم کیا اور خواتین کو سرعام کوڑے لگائے ان کو کیفرکردار تک پہنچانا جائے۔
یاد رہے کہ متاثرین سوات کا جرگہ سوات کے با اثر خوانین پر مشتمل ہے جن میں نیکتی خیل امن جرگہ کے سربراہ سیف اللہ خان، محمد ادریس خان، محمد ابراہیم خان اور فیروز شاہ خان ایڈوکیٹ شامل ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ جرگہ ممبران میں اکثریتی افراد کا تعلق حکومت حامی لشکر یا سول ڈیفنس کمیٹی کے اراکین پر مشتمل ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سوات میں پہلی مرتبہ کسی مقامی جرگہ نے فوجی عدالتوں کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔
سوات اور مالاکنڈ ڈویژن کےدیگر اضلاع میں اس وقت ہزاروں افراد دہشتگردی اور عسکریت پسندی کے الزامات کے تحت پابند سلاسل ہیں۔ لیکن اطلاعات کے مطابق ان میں بیشتر افراد کو ابھی تک عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاسکا ہے۔
سوات میں حکومت کی طرف سے شرعی نظام عدل کے قیام کا اعلان تو کیا گیا ہے لیکن عدالتوں نے ابھی تک عملی طورپر کام شروع نہیں کیا ہے جس سے عسکریت پسندوں کے مقدمات مزید تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں۔

....................

.......................


We Hope You find the info useful. Keep visiting this blog and remember to leave your feedback / comments / suggestions / requests.
With Regards,
"FATA Awareness Initiative" Team.

No comments:

Post a Comment