Pages

Wednesday, April 20, 2011

نیا سیاسی جوڑ توڑ - BBC Urdu Report

بی بی سی اردو ڈاٹ کام :Courtesy 

نیا سیاسی جوڑ توڑ



پاکستان میں آج کل قومی حکومت کے نام سے ایک نئی سیاسی کھچڑی پکانے کی تیاری ہو رہی ہے اور حکمران پیپلز پارٹی جرنیلی جمہوریت کے نظریہ ضرورت کے تحت وجود میں آنے والی جماعت مسلم لیگ (ق) کے ساتھ ‘پاور شیئرنگ ڈیل’ میں مصروف ہے۔

ویسے تو مسلم لیگ (ق) کے ساتھ جنوری سنہ دو ہزار نو سے ایوان صدر کے خفیہ رابطے ہیں اور متعدد بار خفیہ ملاقاتوں کے علاوہ حال ہی میں چند اعلانیہ ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ جب معاملات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوئے تو صدر آصف علی زرداری نے اپنی جماعت کی ‘کور کمیٹی‘ کا اجلاس بلایا اور انہیں اعتماد میں لیا۔

گزشتہ دنوں ’کور کمیٹی‘ کے ایک اجلاس میں صدر نے کہا کہ انہوں نے بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد مسلم لیگ (ق) کو جو قاتل لیگ کہا تھا اصل میں وہ پرویز مشرف اینڈ کمپنی تھی اور اب وہ اس جماعت سے علیحدہ ہوگئے ہیں۔

صدر نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے کہا ہے کہ وہ حکومت سے علیحدہ ہونے والے پرانے اتحادیوں متحدہ قومی موومینٹ اور جمیعت علماء اسلام (ف) کے علاوہ دیگر جماعتوں سے بھی رابطے کریں اور انہیں قومی حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دیں۔

بظاہر تاحال متحدہ قومی موومینٹ اور جمیعت علماء اسلام (ف) کے سرکردہ رہنما کہہ رہے ہیں کہ وہ حکومت میں شامل نہیں ہوں گے لیکن ان کی ماضی کی قلابازیوں کو اگر دیکھیں تو ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ اقتدار کے تالاب میں چھلانگ نہ لگائیں۔

لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر پیپلز پارٹی کو تین سال بعد قومی حکومت بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔ جس کی ایک صاف صاف وجہ تو یہ نظر آتی ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے قومی مصالحت کی ‘چورن‘ بیچ کر تین سال گزار لیے ہیں اور اب باقی ماندہ مدت پوری کرنے کے لیے انہیں ‘قومی حکومت‘ کی نئی دوائی متعارف کرنی پڑ رہی ہے۔

ظاہر ہے کہ جون میں بجٹ آ رہا ہے، آئی ایم ایف کی فرمائش ہے کہ نئے ٹیکس لگائیں اور موجودہ ٹیکس کا دائرہ وسیع کریں۔ کیونکہ حکومتی اتحاد سے جمیعت علماء اسلام (ف) کی علیحدگی اور متحدہ قومی موومینٹ کے روز روز کے روٹھنے کے بعد اس وقت حکومت کیلے کی کھال پر چھلکے ہے۔

مسلم لیگ (ق) کے پچاس اراکین ہیں اور اگر وہ حکومت کا حصہ بنتے ہیں تو پیپلز پارٹی کا آئے روز کا دردِ سر ختم ہوجائے گا۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ق) آخر حکومت کو اپنا کندھا کیوں پیش کرے؟۔

دیکھا جائے تو مسلم لیگ (ق) کے لیے یہ سودا مہنگا بھی نہیں ہے بلکہ موجودہ حالات یا آنے والے وقت میں بھی یہ ان کے لیے سود مند ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) کو نیچا دکھانے کے لیے وہ پیپلز پارٹی سے اتحاد کرلیں۔ کیونکہ بجٹ کے بعد بلدیاتی الیکشن کی باتیں ہو رہی ہیں، آئندہ سال مارچ میں سینیٹ کی ملک بھر میں پچاس نشستوں پر انتخاب ہونا ہے اور بعد میں عام انتخابات بھی ہونے ہیں۔

ویسے بھی آج کل مسلم لیگ (ن) کے کرتا دھرتا پرویز الہیٰ کے صاحبزادے مونس الہیٰ بظاہر سیانے کوے کی طرح دونوں ٹانگوں کے ساتھ بدعنوانی کے ایک مقدمے میں بری طرح پھنسے ہیں۔ اس مقدمے کی تحقیقات فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی ‘ایف آئی اے’ کر رہی ہے۔ چند روز قبل خبریں آئیں کہ حکومت نے مونس الہیٰ کو پھنسانے والے ان کے مقدمے کے تفتیشی افسر کو تبدیل کردیا ہے۔ اس تعاون کے نتیجے میں جہاں انہیں مزید رلیف ملے گا وہاں پرویز الہیٰ کی خود ساختہ نائب وزیراعظم اور سید مشاہد حسین کی وزیر خارجہ بننے کی دیرینہ خواہش بھی پوری ہوسکتی ہے۔

باقی رہی بات پیپلز پارٹی سے اتحاد کے مخالف سید فیصل صالح حیات اور ان کے چند ہم خیالوں کی تو ظاہر ہے ان کی قربانی دینے سے مسلم لیگ (ق) کی صحت پر کیا فرق پڑے گا۔ ویسے بھی فیصل صالح حیات نے اپنے مستقبل کا معاملہ دو تین جگہوں پر پکا کر لیا ہے۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے اتحاد سے جہاں مرکزی حکومت مضبوط ہوگی وہاں پنجاب اسمبلی میں وہ بھرپور انداز میں اپوزیشن کا کردار ادا کرکے مسلم لیگ (ن) کے لیے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ اگر اس اتحاد میں ایم کو ایم اور جے یو آئی بھی شامل ہوتے ہیں تو مسلم لیگ (ن) سیاسی تنہائی کا شکار ہوسکتی ہے جو کہ اس اتحاد کے علاوہ ایسٹیبلشمینٹ کے لیے بھی بھلے کی بات ہوگی۔

اس کے علاوہ دوسرا امکانی منظر عدالتی فورم کی وجہ سے بن سکتا ہے۔ جہاں صدر آصف علی زرداری اور مونس الہیٰ کے خلاف مقدمات زیر التویٰ ہیں۔ اگر ان کے خلاف مقدمات کے فیصلے آنے سے سیاسی منظر تبدیل ہوتا ہے یا کوئی انہونی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ایسے میں بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کا اتحاد دونوں کے ’قومی مفاد‘ میں ہے کیونکہ اور نہیں تو اکٹھے رودالی کا کردار تو ادا کر ہی سکتے ہیں نا۔
....................
.......................


We Hope You find the info useful. Keep visiting this blog and remember to leave your feedback / comments / suggestions / requests.
With Regards,
"FATA Awareness Initiative" Team.

No comments:

Post a Comment